جو آستاں سے ترے لو لگائے بیٹھے ہیں
خدا گواہ وہ دنیا پہ چھائے بیٹھے ہیں
چمک رہی ہیں جبینیں ترے فقیروں کی
تجلیات کے سہرے سجائے بیٹھےہیں
خدا کے واسطے اب کھول اُن پہ بابِ عطا
جو دیر سے تیری چوکھٹ پہ آئے بیٹھے ہیں
جلائے گی اُنھیں اب کیا چمن میں برقِ فلک
جو آشیانہء ہستی جلائے بیٹھے ہیں
بڑے بڑوں کے سروں سے اُتر رہا ہے خمار
وہ آج خیر سے محفل پہ چھائے بیٹھے ہیں
جہاں بھی جائیے اُن کے سِتم کا چرچا ہے
وہ ساری خلق میں طوفاں اُٹھائے بیٹھے ہیں
یہ ایک ہم ہیں جو اپنوں کے دِل نہ جیت سکے
وہ دشمنوں کو بھی اپنا بنائے بیٹھے ہیں
اجل بھی ہم کو اُٹھانے پہ اب نہیں قادر
یہاں ہم آج کسی کے بِٹھائے بیٹھے ہیں
وفا کے نام پہ دشمن کا امتحاں بھی سہی
کہ دوستوں کو تو ہم آزمائے بیٹھے ہیں
نصیر ہم میں اپنوں کی کوئی بات نہیں
کرم ہے اُن کا جو اپنا بنائے بیٹھے ہیں
شاہ پیر سید نصیر الدیں نصیر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ
No comments:
Post a Comment